Saturday 20 April 2024

تم لوگ جو ہنستے ہو کس بات پہ ہنستے ہو

 کس بات پہ ہنستے ہو؟


تم لوگ جو ہنستے ہو

کس بات پہ ہنستے ہو؟

مجھ کو بھی تو بتلاؤ

میں بھی تو ذرا ہنس لوں

دیکھو تو مِری صورت

ماتھے پہ تناؤ ہیں

اشکوں کے تسلسل سے

چہرے پہ کٹاؤ ہیں

حسرت بھری آنکھیں ہیں

مورت میں اگر جڑ دوں

پتّھر کو بھی جھلسا دیں

دل اُس کا بھی پگھلا دیں

جیون جسے کہتے ہیں 

اک ساز ہے یک تارا

دل میں سے گرزتا ہے

ہر وقت یہ بجتا ہے 

جوں جوں یہ تھرکتا ہے

اندر سے میں کٹتا ہوں

رک جائے تو خاموشی

بجتا ہے تو نغمہ ہے

گر اتنا کٹیلا تھا

تلوار بنا لیتی 

پُر خوف و خطر رہ میں  

ہر گام پہ کام آتا

کیوں دھار سے تم کھیلی

کیا کام کیا تم نے

ہتھیار سے اپنے ہی 

کاٹا بھی تو کیا تم نے  

زنجیر تعلق کو

دو نیم کیا تم نے 

بیٹھا ہوں شکستہ دل

دنیا کے کنارے پر

اس رین بسیرے سے

جانا ہے بُلارے پر

میری بھی طرف پھیرو

جیون بھرے شیشے کو

دم بھر کو لگا لوں دم

ہر درد دھواں کر دوں

تم لوگ انوکھے ہو

جادو بھرے دھوکے ہو

خوابوں کے جھروکے ہو

خوشبوؤں کے جھونکے ہو

مجھ کو بھی تو مہکا دو

میں بھی تو کبھی مہکوں

تم لوگ جو ہنستے ہو

کس بات پہ ہنستے ہو؟


سرمد سروش

No comments:

Post a Comment