میں نے گرتی ہوئی دیوار پہ تحریر کیا
جس نے آثار صنادید لکھی ہو وہی اسباب بغاوت لکھے
اس سے پہلے مگر اک رسم ملاقات بھی ہے
یہ بڑھاپے کی سزا ہے کہ جوانی کا عذاب
طشت میں پھول ہیں اور سر پہ سفر کا سورج
اور جو باقی ہے وہ عیار کی زنبیل میں ہے
میں محلات و عمارات سے تجرید کیا
جس نے تاریخ فرشتہ لکھی
وہی دربار عزازیل کا قصہ لکھے
خط کوفی میں لکھے شام کے بازار کا حال
نسخ میں فلسفہ و فکر کی تنسیخ لکھے
خط عارض میں لکھے حلقۂ گردن کی گرفت
اسی گردن کی جو عیار کی زنبیل میں ہے
میں نے زنبیل پہ تحریر کیا
جس نے آثار صنادید لکھی ہو، وہی اسباب بغاوت لکھے
انور خالد
No comments:
Post a Comment