Wednesday, 24 April 2024

تو کیا میں دل میں تری یاد بو نہیں پایا

 تو کیا میں دل میں تری یاد بو نہیں پایا

کہ تیرے رنگ کا اک شعر ہو نہیں پایا

بچھڑتے وقت اک الماس لمس نے سونپا

میں چاہتا تھا بہت رونا، رو نہیں پایا

سند تھی کارِ مسیحائی کی صبا کے ہاتھ

مِرا علاج، ہواؤں سے ہو نہیں پایا

طرف طرف میں عجب روشنی تھی، خُوشبو تھی

وہ اہتمام تھا شب کا؛ کہ سو نہیں پایا

نہ جانے کون سی مٹی تھی چاک پر میرے

میں اپنا خاک زدہ ہاتھ دھو نہیں پایا

مِری تلاش کا میدان تنگ تھا شاید

میں تیرے شہر کی گلیوں میں کھو نہیں پایا

 

امیر حمزہ ثاقب

No comments:

Post a Comment