تو کیا میں دل میں تری یاد بو نہیں پایا
کہ تیرے رنگ کا اک شعر ہو نہیں پایا
بچھڑتے وقت اک الماس لمس نے سونپا
میں چاہتا تھا بہت رونا، رو نہیں پایا
سند تھی کارِ مسیحائی کی صبا کے ہاتھ
مِرا علاج، ہواؤں سے ہو نہیں پایا
طرف طرف میں عجب روشنی تھی، خُوشبو تھی
وہ اہتمام تھا شب کا؛ کہ سو نہیں پایا
نہ جانے کون سی مٹی تھی چاک پر میرے
میں اپنا خاک زدہ ہاتھ دھو نہیں پایا
مِری تلاش کا میدان تنگ تھا شاید
میں تیرے شہر کی گلیوں میں کھو نہیں پایا
امیر حمزہ ثاقب
No comments:
Post a Comment