خضر راہ
ساحل دريا پہ ميں اک رات تھا محو نظر
گوشہ دل ميں چھپائے اک جہان اضطراب
شب سکوت افزا، ہوا آسودہ، دريا نرم سير
تھی نظر حيراں کہ يہ دريا ہے يا تصوير آب
جيسے گہوارے ميں سو جاتا ہے طفل شير خوار
موج مضطر تھی کہيں گہرائيوں ميں مست خواب
رات کے افسوں سے طائر آشيانوں ميں اسير
انجم کم ضو گرفتار طلسم ماہتاب
ديکھتا کيا ہوں کہ وہ پيک جہاں پيما خضر
جس کي پيری ميں ہے مانند سحر رنگ شباب
کہہ رہا ہے مجھ سے، اے جويائے اسرار ازل!
چشم دل وا ہو تو ہے تقدير عالم بے حجاب
دل ميں يہ سن کر بپا ہنگامہ محشر ہوا
ميں شہيد جستجو تھا، يوں سخن گستر ہوا
اے تری چشم جہاں بيں پر وہ طوفاں آشکار
جن کے ہنگامے ابھي دريا ميں سوتے ہيں خموش
'کشتئ مسکين، و جان پاک و ديوار يتيم،
علم موسیٰ بھی ہے تيرے سامنے حيرت فروش
چھوڑ کر آبادياں رہتا ہے تو صحرا نورد
زندگی تيری ہے بے روز و شب و فردا دوش
زندگی کا راز کيا ہے، سلطنت کيا چيز ہے
اور يہ سرمايہ و محنت ميں ہے کيسا خروش
ہو رہا ہے ايشيا کا خرقہ ديرينہ چاک
نوجواں اقوام نو دولت کے ہيں پيرايہ پوش
گرچہ اسکندر رہا محروم آب زندگی
فطرت اسکندری اب تک ہے گرم ناؤ نوش
بيچتا ہے ہاشمی ناموس دين مصطفیٰ
خاک و خوں ميں مل رہا ہے ترکمان سخت کوش
آگ ہے، اولاد ابراہيمؑ ہے، نمرود ہے
کيا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے
جواب خضر
صحرا نوردی
کيوں تعجب ہے مری صحرا نوردی پر تجھے
يہ تگا پوئے دما دم زندگی کی ہے دليل
اے رہين خانہ تُو نے وہ سماں ديکھا نہيں
گونجتی ہے جب فضائے دشت ميں بانگ رحيل
ريت کے ٹيلے پہ وہ آہو کا بے پرواہ خرام
وہ حضر بے برگ و ساماں، وہ سفر بے سنگ و ميل
وہ نمود اختر سيماب پا ہنگام صبح
يا نماياں بام گردوں سے جبين جبرئيل
وہ سکوت شام صحرا ميں غروب آفتاب
جس سے روشن تر ہوئی چشم جہاں بين خليل
اور وہ پانی کے چشمے پر مقام کارواں
اہل ايماں جس طرح جنت ميں گرد سلسبيل
تازہ ويرانے کی سودائے محبت کو تلاش
اور آبادی ميں تو زنجيری کشت و نخيل
پختہ تر ہے گردش پہيم سے جام زندگی
ہے يہی اے بے خبر راز دوام زندگی
زندگی
برتر از انديشۂ سود و زياں ہے زندگی
ہے کبھی جاں اور کبھی تسليم جاں ہے زندگی
تو اسے پيمانۂ امروز و فردا سے نہ ناپ
جاوداں پيہم دواں، ہر دم جواں ہے زندگی
اپنی دنيا آپ پيدا کر اگر زندوں ميں ہے
سر آدمؑ ہے، ضمير کن فکاں ہے زندگی
زندگانی کی حقيقت کوہکن کے دل سے پوچھ
جوئے شير و تيشہ و سنگ گراں ہے زندگی
بندگی ميں گھٹ کے رہ جاتی ہے اک جوئے کم آب
اور آزادی ميں بحر بے کراں ہے زندگي
آشکارا ہے يہ اپنی قوت تسخير سے
گرچہ اک مٹی کے پيکر ميں نہاں ہے زندگی
قلزم ہستی سے تُو ابھرا ہے مانند حباب
اس زياں خانے ميں تيرا امتحاں ہے زندگی
خام ہے جب تک تو ہے مٹی کا اک انبار تُو
پختہ ہو جائے تو ہے شمشير بے زنہار تُو
ہو صداقت کے ليے جس دل ميں مرنے کی تڑپ
پہلے اپنے پيکر خاکی ميں جاں پيدا کرے
پھونک ڈالے يہ زمين و آسمان مستعار
اور خاکستر سے آپ اپنا جہاں پيدا کرے
زندگی کی قوت پنہاں کو کر دے آشکار
تا يہ چنگاری فروغ جاوداں پيدا کرے
خاک مشرق پر چمک جائے مثال آفتاب
تا بدخشاں پھر وہی لعل گراں پيدا کرے
سوئے گردوں نالہ شب گير کا بھيجے سفير
رات کے تارں ميں اپنے رازداں پيدا کرے
يہ گھڑی محشر کی ہے، تُو عرصۂ محشر ميں ہے
پيش کر غافل، عمل کوئی اگر دفتر ميں ہے
سلطنت
آ بتاؤں تجھ کو رمز آيۂ؛ ان الملوک
سلطنت اقوام غالب کی ہے اک جادوگری
خواب سے بيدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر
پھر سلا ديتی ہے اس کو حکمراں کی ساحری
جادوئے محمود کی تاثير سے چشم اياز
ديکھتی ہے حلقۂ گردن ميں ساز دلبری
خون اسرائيل آ جاتا ہے آخر جوش ميں
توڑ ديتا ہے کوئی موسیٰ طلسم سامری
سروری زيبا فقط اس ذات بے ہمتا کو ہے
حکمراں ہے اک وہی، باقي بتان آزری
از غلامی فطرت آزاد را رسوا مکن
تا تراشی خواجہ ے از برہمن کافر تری
ہے وہی ساز کہن مغرب کا جمہوری نظام
جس کے پردوں ميں نہيں غير از نوائے قيصری
ديو استبداد جمہوری قبا ميں پائے کوب
تُو سمجھتا ہے يہ آزادی کی ہے نيلم پری
مجلس آئين و اصلاح و رعايات و حقوق
طب مغرب ميں مزے ميٹھے، اثر خواب آوری
گرمئ گفتار اعضائے مجالس، الاماں
يہ بھی اک سرمايہ داروں کي ہے جنگ زرگری
اس سراب رنگ و بو کو گلستاں سمجھا ہے تُو
آہ اے ناداں! قفس کو آشياں سمجھا ہے تو
سرمايہ و محنت
بندۂ مزدور کو جا کر مِرا پيغام دے
خضرؑ کا پيغام کيا، ہے يہ پيام کائنات
اے کہ تجھ کو کھا گيا سرمايہ دار حيلہ گر
شاخ آہو پر رہی صديوں تلک تيری برات
دست دولت آفريں کو مزد يوں ملتی رہی
اہل ثروت جيسے ديتے ہيں غريبوں کو زکات
ساحر الموط نے تجھ کو ديا برگ حشيش
اور تُو اے بے خبر سمجھا اسے شاخ نبات
نسل، قوميت، کليسا، سلطنت، تہذيب، رنگ
خواجگی نے خوب چن چن کے بنائے مسکرات
کٹ مرا ناداں خيالی ديوتاؤں کے ليے
سکر کی لذت ميں تو لٹوا گيا نقد حيات
مکر کی چالوں سے بازی لے گيا سرمايہ دار
انتہائے سادگی سے کھا گيا مزدور مات
اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی اندازہے
مشرق و مغرب ميں تيرے دور کا آغاز ہے
ہمت عالی تو دريا بھی نہيں کرتی قبول
غنچہ ساں غافل ترے دامن ميں شبنم کب تلک
نغمہ بيدارئ جمہور ہے سامان عيش
قصہ خواب آور اسکندر و جم کب تلک
آفتاب تازہ پيدا بطن گيتی سے ہوا
آسمان! ڈوبے ہوئے تاروں کا ماتم کب تلک
توڑ ڈاليں فطرت انساں نے زنجيريں تمام
دورئ جنت سے روتی چشم آدم کب تلک
باغبان چارہ فرما سے يہ کہتی ہے بہار
زخم گل کے واسطے تدبير مرہم کب تلک
کرمک ناداں! طواف شمع سے آزاد ہو
اپنی فطرت کے تجلی زار ميں آباد ہو
دنيائے اسلام
کيا سناتا ہے مجھے ترک و عرب کي داستاں
مجھ سے کچھ پنہاں نہيں اسلاميوں کا سوز و ساز
لے گئے تثليث کے فرزند ميراث خليل
خشت بنياد کليسا بن گئی خاک حجاز
ہوگئی رسوا زمانے ميں کلاہ لالہ رنگ
جو سراپا ناز تھے، ہيں آج مجبور نياز
لے رہا ہے مے فروشان فرنگستاں سے پارس
وہ مئے سرکش حرارت جس کی ہے مينا گداز
حکمت مغرب سے ملت کي يہ کيفيت ہوئی
ٹکڑے ٹکڑے جس طرح سونے کو کر ديتا ہے گاز
ہو گيا مانند آب ارزاں مسلماں کا لہو
مضطرب ہے تُو کہ تيرا دل نہيں دانائے راز
گفت رومی؛ ہر بناے کہنہ کآباداں کنند
مي ندانی؛ اول آں بنياد را ويراں کنند
ملک ہاتھوں سے گيا ملت کی آنکھيں کھل گئيں
حق ترا چشمے عطا کردست غافل در نگر
موميائی کی گدائی سے تو بہتر ہے شکست
مور بے پر، حاجتے پيش سليمانے مبر
ربط و ضبط ملت بيضا ہے مشرق کی نجات
ايشيا والے ہيں اس نکتے سے اب تک بے خبر
پھر سياست چھوڑ کر داخل حصار ديں ميں ہو
ملک و دولت ہے فقط حفظ حرم کا اک ثمر
ايک ہوں مسلم حرم کي پاسباني کے ليے
نيل کے ساحل سے لے کر تا بخاک کاشغر
جو کرے گا امتياز رنگ و خوں، مٹ جائے گا
ترک خرگاہی ہو يا اعرابی والا گہر
نسل اگر مسلم کي مذہب پر مقدم ہو گئی
اڑ گيا دنيا سے تو مانند خاک رہ گزر
تا خلافت کی بنا دنيا ميں ہو پھر استور
لا کہيں سے ڈھونڈ کر اسلاف کا قلب و جگر
اے کہ نشناسی خفی را از جلی ہشيار باش
اے گرفتار ابو بکر و علی ہشيار باش
عشق کو فرياد لازم تھی سو وہ بھی ہو چکی
اب ذرا دل تھام کر فرياد کی تاثير ديکھ
تُو نے ديکھا سطوت رفتار دريا کا عروج
موج مضطر کس طرح بنتی ہے اب زنجير ديکھ
عام حريت کا جو ديکھا تھا خواب اسلام نے
اے مسلماں آج تو اس خواب کي تعبير ديکھ
اپنی خاکستر سمندر کو ہے سامان وجود
مر کے پھر ہوتا ہے پيدا يہ جہان پير، ديکھ
کھول کر آنکھيں مِرے آئينۂ گفتار ميں
آنے والے دور کي دھندلی سی اک تصوير ديکھ
آزمودہ فتنہ ہے اک اور بھی گردوں کے پاس
سامنے تقدير کے رسوائی تدبير ديکھ
مسلم استی سينہ را از آرزو آباد دار
ہر زماں پيش نظر، لايخلف الميعاد دار
٭
لطف مرنے میں ہے باقی نہ مزا جینے میں
کچھ مزا ہے تو یہی خون جگر پینے میں
کتنے بے تاب ہیں جوہر مرے آئینے میں
کس قدر جلوے تڑپتے ہیں مرے سینے میں
اس گلستاں میں مگر دیکھنے والے ہی نہیں
داغ جو سینے میں رکھتے ہوں وہ لالے ہی نہیں
چاک اس بلبل تنہا کی نوا سے دل ہوں
جاگنے والے اسی بانگ درا سے دل ہوں
یعنی پھر زندہ نئے عہد وفا سے دل ہوں
پھر اسی بادہ دیرینہ کے پیاسے دل ہوں
عجمی خم ہے تو کیا مے تو حجازی ہے مری
نغمہ ہندی ہے تو کیا لے تو حجازی ہے مری
علامہ محمد اقبال
No comments:
Post a Comment