ہم لوگ، تیری بات، تِرے بعد مان کر
بس چُپ ہیں، غم کو قدرتی افتاد مان کر
اب دیکھیے کہ ساتھ نبھاتا ہے کتنے مِیل
چل تو پڑا ہے وہ مِری فریاد مان کر
تم سب نے اُتنا رونا ہے، جتنا کہ میں کہوں
مجھ کو اصولِ گریہ کا استاد مان کر
سب مانگتے ہیں مشورہ تیرے فقیر سے
دیوارِ صبرِ دہر کی بنیاد مان کر
کل شب حضورِ یار تھا کرتب پذیر دل
بے شرم، لوٹا خامشی کو داد مان کر
میں جس کو چھوڑ دیتا ہوں، وہ جاں سے جاتا ہے
تُو سانس لے رہا ہے مِرے بعد، مان کر
ہم بے وقوف برسوں مناتے رہے شفیق
اک تیرے غم کو ترکۂ اجداد مان کر
نعمان شفیق
No comments:
Post a Comment