سحر کیسا ہے دیکھو اس تاج میں شامل
ہوئی نفاست بادشاہ کے مزاج میں شامل
ہاتھ معصوموں کے خُون سے رنگ کے
اِبلیس لاکھوں ہوئے حجاج میں شامل
ہے اپنے ہی گُناہوں کا صِلہ یہ بھی
کہ برکت نہیں رہی اناج میں شامل
اُس قوم کا کل ہے روشن، نا ممکن
آزاد ہوں ظالم ، جس قوم کے آج میں شامل
سردی میں ٹِھٹھرتے ہوئے ناداروں کے
قاتل ہیں یہ وحشی، سماج میں شامل
بِلکتے ہوئے مظلوموں کی صدائیں، سن لو
اِس دور کے آمر، ہیں اندراج میں شامل
جس قوم میں نِسواں ہوں نا خواندہ حیدر
رُسوائی تو ہو گی اُس قوم کی لاج میں شامل
وقاص حیدر
No comments:
Post a Comment