Monday 22 April 2024

کوئی مولوی ہو کہ پیر ہو کوئی شیخ ہو کہ ہو چودھری

 زعفرانی غزل


کوئی مولوی ہو کہ پیر ہو، کوئی شیخ ہو کہ ہو چودھری

"یہ قتیلِ غمزۂ چرچلی، وہ شہیدِ جلوۂ ڈالری"

نہ اسے خیالِ منسٹری نہ اُسے جنونِ گورنری

تری بارگاہ سے مل گئی جسے کوئی مِل کوئی فیکٹری

یہ خدا کے نام پہ بن گئے جو خدا کے دین کے چودھری

ابھی کل کی بات ہے کر رہے تھے صنم کدے میں ہری ہری

یہ سفارشیں، یہ گزارشیں، یہ نمائشیں، یہ نوازشیں

یہ صدارتوں کی گداگری، یہ سفارتوں کی گداگری

نہ ہم اپنی وضع بدل سکے نہ وہ اپنا رنگ بدل سکے

وہی اُن کی شانِ تونگری، وہی اپنی شانِ قلندری


مجید لاہوری

No comments:

Post a Comment