Thursday 25 April 2024

تم سے ملنے کے پھر آثار نہیں

 دھوکا


تم سے ملنے کے پھر آثار نہیں

دوریاں ڈسنے لگیں وصل کی امیدوں کو

ایک ایک لمحہ گزرتا ہے گراں دل پہ بہت

ایک موہوم توقع ہے ہنوز

تم کسی وقت کسی کام سے گزرو شاید

دیکھتی رہتی ہے چشم امید

ہر مسافر کو گزرتے ہوئی رستے سے یونہی

تم گزرتی ہو نہ آتی ہو مگر

دست فرقت نے ہر اک راہ گزر

جگمگادی ہے تصور کے چراغوں سے مگر

وصل کی بات تصور میں کہاں


ضیا ندیم

حسین مجتبیٰ زیدی

No comments:

Post a Comment