دھوکا
تم سے ملنے کے پھر آثار نہیں
دوریاں ڈسنے لگیں وصل کی امیدوں کو
ایک ایک لمحہ گزرتا ہے گراں دل پہ بہت
ایک موہوم توقع ہے ہنوز
تم کسی وقت کسی کام سے گزرو شاید
دیکھتی رہتی ہے چشم امید
ہر مسافر کو گزرتے ہوئی رستے سے یونہی
تم گزرتی ہو نہ آتی ہو مگر
دست فرقت نے ہر اک راہ گزر
جگمگادی ہے تصور کے چراغوں سے مگر
وصل کی بات تصور میں کہاں
ضیا ندیم
حسین مجتبیٰ زیدی
No comments:
Post a Comment