گُلاب کی رُت سے جا کے پُوچھو تھے پر مِرے پاس تِتلیوں کے
مگر وہ چشمِ زدن کہ توبہ پہاڑ ٹُوٹے تھے بدلیوں کے
وہ سارا الزام سر پہ لے کر خُود اپنی قاتل ٹھہر چکی تھی
ہزار ڈھونڈو مِری قبا پر، نشاں مِلیں گے نہ اُنگلیوں کے
قُصور کس کا تھا کون جانے، نہ ہم ہی سمجھے، نہ تم پہ ظاہر
کسی طلب کا وجود ہیں ہم، شگاف کہتے ہیں پسلیوں کے
نہ جانے کب بے صدا ہُوا وہ، نہ جانے کب بے ضرر ہُوا وہ
اکیلا تن اس طرح تھا اُس کا، ہوں پر جُدا جیسے تِتلیوں کے
ہزار آنکھوں کے تیز نشتر مِرے بدن میں چُبھے ہُوئے ہیں
رقیب آنکھیں سما گئی ہیں، لگے ہیں تل مجھ پہ پُتلیوں کے
وہ ایسا پتھر تھا جس کے اندر، ہزار موسم چُھپے ہُوئے تھے
حسِین لفظوں کے سچے موتی اسیر تھے اُس کی اُنگلیوں کے
نسیم ہی تھی جو چل رہی تھی تھکن کے احساس کو سمیٹے
حسِین خُوشبو سے پیکروں کو، تو ناز اُٹھائے تھے بِجلیوں کے
نسیم مخموری
No comments:
Post a Comment