Wednesday 17 April 2024

وہ حقیقت تھی کہ سپنا تھا کسی کو دے دیا

 وہ حقیقت تھی کہ سپنا تھا کسی کو دے دیا

جو بھی اپنے پاس اپنا تھا کسی کو دے دیا

جسم اپنے کو پرایا جان کر ہی رکھ لیا

رُوح کیا تھی اِک تماشا تھا کسی کو دے دیا

اِک طرف زوروں پہ تھی فرمائشیں دل دو ہمیں

دوسری جانب یہ کہنا تھا کسی کو دے دیا

گویا اپنی زندگی کے آپ ہم دشمن بنے

عُمر کا جو اِک سہارا تھا کسی کو دے دیا

احمد اُن کے حکم کی تعمیل ہم پر فرض تھی

دل کہ اِک انمول ہیرا تھا کسی کو دے دیا


شکیل احمد

No comments:

Post a Comment