وہ حقیقت تھی کہ سپنا تھا کسی کو دے دیا
جو بھی اپنے پاس اپنا تھا کسی کو دے دیا
جسم اپنے کو پرایا جان کر ہی رکھ لیا
رُوح کیا تھی اِک تماشا تھا کسی کو دے دیا
اِک طرف زوروں پہ تھی فرمائشیں دل دو ہمیں
دوسری جانب یہ کہنا تھا کسی کو دے دیا
گویا اپنی زندگی کے آپ ہم دشمن بنے
عُمر کا جو اِک سہارا تھا کسی کو دے دیا
احمد اُن کے حکم کی تعمیل ہم پر فرض تھی
دل کہ اِک انمول ہیرا تھا کسی کو دے دیا
شکیل احمد
No comments:
Post a Comment