زعفرانی غزل
دبلاپا
صورت سے نظر آتے ہیں سوکھا ہوا میوہ
اک ٹھیس بھی لگ جائے تو برسوں کی ہے سیوا
آندھی میں کہیں نکلے تو بیوی ہوئی بیوہ
اس پر بھی یہ دبلوں کا ہمیشہ سے ہے شیوہ
غصہ ہے دھرا ناک پر لڑتے ہیں ہوا سے
بندوں سے نہ وہ خوش ہیں نہ راضی ہیں خدا سے
جاں ان کی لے لیتی ہے معدے کی خرابی
ہٹنے نہ دیں وہ سامنے پھر بھی رکابی
بکری کی طرح خوب دباکر ہیں وہ کھاتے
لکڑی کی طرح ہیں وہ مگر سوکھتے جاتے
ناخوش ہیں وہ جینے سے انہیں دہر سے نفرت
دینا کو جلائیں انہیں رہتی ہے یہ حسرت
مرتے ہیں تو بدلے کی یہ کرجاتے ہیں صورت
جاتے یہاں چھوڑ کے اولاد بکثرت
انسان کی امپورٹ کا گر جائزہ لیجیے
دبلوں کو ملیں فرسٹ ڈویژن میں نتیجے
مسٹر دہلوی
No comments:
Post a Comment