زعفرانی کلام
غریب اپنے سٹیٹس کے ہاتھوں مارا گیا
ہوا جو عشق میں رانجھا، وہی کنوارا گیا
ہوا یہ حال بھی شادی کے بعد شوہر کا
بچا جو ماں سے تو بیوی کی مار مارا گیا
پسر کی شادی پہ اماں نے آہ بھر کے کہا
لو آج میرے بڑھاپے کا بھی سہارا گیا
بحال ہونے چلی تھی طبیعتِ بیمار
وہ ڈاکٹر کی مگر فیس سن کے مارا گیا
سفارشوں سے وہ کھیلا تھا اپنا آخری میچ
چمک رہا تھا جو کرکٹ میں وہ ستارا گیا
یہ شہر شہرِ خموشاں ہے اس کے جانے سے
چلی جو کارتو سب نے کہا کھٹارا گیا
تمام رات فضاؤں میں بوٹیاں گونجیں
ڈنر لذیذ تھا لیکن بڑا ڈکارا گیا
لٹک رہا تھا و ہ کھمبے کی تار سے بینا
پتنگ باز کو کوٹھے سے جب اتارا گیا
روبینہ شاہین بینا
No comments:
Post a Comment