برسوں کوئی ہمارے لیے جسم و جاں رہا
لیکن وہ اب فریب کا عالم کہاں رہا
ایسے بھی راستوں سے گزرنا پڑا کہ بس
وہ بد گماں رہے، کبھی میں بد گماں رہا
حالات نے مٹا دئیے ماضی کے سب نقوش
اک نام تھا جو مٹ کے بھی وِرد زباں رہا
دُھندلے سے کچھ نشاں ہیں گھٹاؤں کے دھیان میں
اب وہ رہے نہ دور نہ پیر مغاں رہا
آسی دیا ہے جس نے زمانے میں اپنا حق
روشن اسی کا دہر میں نام و نشاں رہا
آسی فائقی
عاصی فائقی
No comments:
Post a Comment