زعفرانی کلام
بوڑھے شوہر سے محبت کی نشانی مانگے
کام کرنے کو بھی گھر والی زنانی مانگے
عشق آسان نہیں پوچھ کسی ٹھرکی سے
اتنا مشکل ہے کہ بے کار جوانی مانگے
سر پہ پڑتا ہےمحبت سے وہ تگڑا بیلن
وہ جو بیوی سے کبھی حسن معانی مانگے
کیا زمانہ ہے کہ اب بچہ مِرا سو کا نوٹ
اس طرح مانگتا ہے جیسے چوانی مانگے
کیسے کہہ دوں کہ وہ غمخوار نہیں ہے میرا
پیاز کٹوا کے مِری اشک فشانی مانگے
ناک نقشہ ہے نہ رنگت ہے، مگر نخرہ ہے
اپنے رشتے میں کوئی حُسن کی رانی مانگے
ایک شوہر کی یہ خواہش بھی ہے دل ہی دل میں
زہر بیوی کو پلا دے جو وہ پانی مانگے
خان صاحب رہے نسوار کے عاشق بینا
اُن کی کی تو خواہش تھی پٹھانی مانگے
روبینہ شاہین بینا
No comments:
Post a Comment