Thursday 18 April 2024

محبت ہے مگر دھوکا نہیں ہے

 محبت ہے مگر دھوکا نہیں ہے

یہ اس سیارے کا قصہ نہیں ہے

کہیں دریا کہیں صحرا نہیں ہے

ہر اک رستے میں اک رستہ نہیں ہے

اسے میں کیوں پکارے جا رہا ہوں

وہی تو ہے جو کچھ سنتا نہیں ہے

جسے چاہے جہاں پہنچا کے رکھ دے

مقدر پر کوئی پہرہ نہیں ہے

یہاں ہیں سینکڑوں ہمنام میرے

مگر کوئی ِجیسا نہیں ہے

جو ہم تک آ رہا ہے تیرے گھر سے

یہی اک راستہ سیدھا نہیں ہے

دلیلوں کے سہارے جینے والے

تِری دیوانگی میں کیا نہیں ہے


شاہد جمیل

No comments:

Post a Comment