دل چاک جگر چاک گریباں دریدہ
یہ لوگ وہ ہیں جن کے ہیں ارمان دریدہ
کیا فائدہ جنگل میں درندوں کی کریں کھوج
انسان ہے اس شہر میں انسان دریدہ
چہرہ تو ہے کچھ اور، دکھاتا ہے وہ کچھ اور
اس دور میں ہر شخص ہے پہچان دریدہ
دیوار سلامت نہ، کوئی در پہ سلامت
ہر آدمی اک شہر ہے، طوفان دریدہ
محفل میں کسی نے بھی میری سمت نہ دیکھا
اک شخص تھا میں، سوختہ سامان دریدہ
اس نے مجھے دیکھا تو، مِری روح کِھل اٹھی
میں اس کے تغافل سے تھا بے جان دریدہ
یہ کیسی بہار آئی ہے گلزار میں عاصم
ہر پھول ہے حیران، پریشان دریدہ
عاصم پیرزادہ
No comments:
Post a Comment