یار الفت عذاب لگتی ہے
اب محبت عذاب لگتی ہے
دوست دشمن نما جو ہوتے ہیں
ان سے رغبت عذاب لگتی ہے
اک شکایت سی جیسے گھر میں گئی
اب شکایت عذاب لگتی ہے
پہلے پہلے تو اس کے خواہاں تھے
اب یہ شہرت عذاب لگتی ہے
پوری کر کر ضرورتیں گھر کی
ہر ضرورت عذاب لگتی ہے
جب سے رنجش ہماری ختم ہوئی
اب کدورت عذاب لگتی ہے
جب ملی ہے سزا شرارت کی
ہر شرارت عذاب لگتی ہے
اسد رضا سحر
No comments:
Post a Comment