تیرا فراق عرصۂ محشر لگا مجھے
جب بھی خیال آیا بڑا ڈر لگا مجھے
جب بھی کیا ارادۂ ترک تعلقات
کیا جانے کیوں وہ شوخ حسیں تر لگا مجھے
پرکھا تو ظلمتوں کے سوا اور کچھ نہ تھا
دیکھا تو ایک نور کا پیکر لگا مجھے
خود اپنی ذات پر بھی نہ رہ جائے اعتبار
اے وقت ہو سکے تو وہ نشتر لگا مجھے
کیا جانے کس جہان میں بستے ہیں نرم دل
میں نے جسے چھوا وہی پتھر لگا مجھے
اک مرتبہ ضرور نظر پھر سے اٹھ گئی
جو قد بھی تیرے قد کے برابر لگا مجھے
قسمت اسی کو کہتے ہیں پھولوں کی سیج پر
لیٹا جو میں تو کانٹوں کا بستر لگا مجھے
اس پھول کا کلیجہ ملا غم سے پاش پاش
جو پھول دیکھنے میں گل تر لگا مجھے
دل ہنس کے جھیل جائے یہ بات اور ہے مگر
چرکا تری نگاہ کا اکثر لگا مجھے
دنیا کا یہ نظام یہ معیار سیم و زر
کمتر لگا مجھے کبھی بد تر لگا مجھے
ان کی گلی کی بات ہی قادرؔ عجیب ہے
ہر شخص شعر فہم و سخنور لگا مجھے
قادر صدیقی
No comments:
Post a Comment