Saturday 20 April 2024

تیرا فراق عرصۂ محشر لگا مجھے

 تیرا فراق عرصۂ محشر لگا مجھے

جب بھی خیال آیا بڑا ڈر لگا مجھے

جب بھی کیا ارادۂ ترک تعلقات

کیا جانے کیوں وہ شوخ حسیں تر لگا مجھے

پرکھا تو ظلمتوں کے سوا اور کچھ نہ تھا

دیکھا تو ایک نور کا پیکر لگا مجھے

خود اپنی ذات پر بھی نہ رہ جائے اعتبار

اے وقت ہو سکے تو وہ نشتر لگا مجھے

کیا جانے کس جہان میں بستے ہیں نرم دل

میں نے جسے چھوا وہی پتھر لگا مجھے

اک مرتبہ ضرور نظر پھر سے اٹھ گئی

جو قد بھی تیرے قد کے برابر لگا مجھے

قسمت اسی کو کہتے ہیں پھولوں کی سیج پر

لیٹا جو میں تو کانٹوں کا بستر لگا مجھے

اس پھول کا کلیجہ ملا غم سے پاش پاش

جو پھول دیکھنے میں گل تر لگا مجھے

دل ہنس کے جھیل جائے یہ بات اور ہے مگر

چرکا تری نگاہ کا اکثر لگا مجھے

دنیا کا یہ نظام یہ معیار سیم و زر

کمتر لگا مجھے کبھی بد تر لگا مجھے

ان کی گلی کی بات ہی قادرؔ عجیب ہے

ہر شخص شعر فہم و سخنور لگا مجھے


قادر صدیقی

No comments:

Post a Comment