Sunday 28 April 2024

رہتا ہے ساتھ ساتھ وہ جانے کے بعد بھی

 رہتا ہے ساتھ ساتھ وہ جانے کے بعد بھی

ملبہ وہیں پڑا ہے اٹھانے کے بعد بھی

سمجھے تھے ہم کہ آخری دشواریاں ہیں یہ

اک اور تھا زمانہ، زمانے کے بعد بھی

کر ہجر میں شمار اسے وصل میں نہ لکھ

آیا نہ اب کی بار وہ آنے کے بعد بھی

مجھ سے زیادہ حافظہ ہے مبتلا مِرا

پڑھتا ہے تیرے خط یہ جلانے کے بعد بھی

اب پیرِ تسمہ پا سے نہیں کم یہ زندگی

جو بچ گئی ہے تجھ پہ لُٹانے کے بعد بھی

یوں کارِ عشق فرق ہے کارِ جہان سے

بڑھتا ہے بوجھ اور گھٹانے کے بعد بھی

تقدیر سے انہیں بھی گِلہ ہے، عجیب ہے

ملتے نہیں جو لوگ ملانے کے بعد بھی 

شاید رواج ہی نہیں ابرک یہاں رہا

رُسوا ہوں کیوں وگرنہ نبھانے کے بعد بھی


اتباف ابرک

No comments:

Post a Comment