کیسے بتاؤں تم کو نہ جانے کدھر گیا
وہ عشق وشق چھوڑ کے شاید سدھر گیا
میں نے بھی اپنے آپ کو مصروف کر لیا
اور اس کی چاہتوں کا بھی دریا اتر گیا
لگتا ہے یوں کہ جیسے ابھی کل کی بات ہے
بچھڑے ہوئے کسی سے زمانہ گزر گیا
رکھتا تھا زندگی کو جو اپنی گرفت میں
وہ شخص جانے ٹوٹ کے کیسے بکھر گیا
کب تک اٹھاتی بوجھ تیری نارسائی کا
دیمک زدہ چوکھاٹ تھی دروازہ گر گیا
آصف ریحان عابد
No comments:
Post a Comment