Saturday 27 April 2024

مرے وجود کا خوشبو طواف کرتی ہے

 مِرے وجود کا خوشبو طواف کرتی ہے

تِری مہک ہے جو مجھ کو غلاف کرتی ہے

صدائے عشق لگانے سے پیشتر سُن لو

کہ یہ بھی سینوں میں گہرے شگاف کرتی ہے

میں چشمِ نم سے اسی واسطے گریزاں ہوں

مِرے غموں کا بھی یہ انکشاف کرتی ہے

کبھی کبھی تو مِرے ساتھ چلنے والوں کو

ہوائے شہر ہی میرے خلاف کرتی ہے

قبول کون کرے گا تِری لیاقت کو

تِری تو بستی تِرا انحراف کرتی ہے

مِری تو اشک روانی بھی اب شبِ ہجراں

کبھی یہ دل تو کبھی رُوح صاف کرتی ہے


آصف علی علوی

No comments:

Post a Comment