Tuesday 30 April 2024

میں نے اس کو خواب میں دیکھا اور نجانے کتنی دیر

 میں نے اس کو خواب میں دیکھا اور نجانے کتنی دیر

میرے ہاتھ میں ہاتھ تھا اس کا اور نجانے کتنی دیر

دل کے دروازے پر اس کی یاد نے کل شب دستک دی

میں دیوار سے لگ کر رویا اور نجانے کتنی دیر 

اک مدت کے بعد مرا احساس ہوا ہرجائی کو

یعنی مجھ کو دیر سے سمجھا اور نجانے کتنی دیر

اس لہجے کی برف نجانے کب پگھلے معلوم نہیں

میری آنکھ سے بہتا دریا اور نجانے کتنی دیر

کوئی تیز ہوا کا جھونکا کوئے یار سے جب آیا

میں اس کی خوشبو سے لپٹا اور نجانے کتنی دیر

اتنا یاد ہے نین ملے تھے آگے پھر کچھ یاد نہیں

میں نشّے میں کتنا بہکا اور نجانے کتنی دیر

شکر خدا کا اسٹیشن پر نام لکھا تھا گاؤں کا

ورنہ میں بھٹکا ہی رہتا اور نجانے کتنی دیر

شام آئی تو چاند کو تکنے مل بیٹھے تھے پھر اس نے

سر میرے شانے پر رکھا اور نجانے کتنی دیر

 

سید جواد حاشر

No comments:

Post a Comment