میں نے اس کو خواب میں دیکھا اور نجانے کتنی دیر
میرے ہاتھ میں ہاتھ تھا اس کا اور نجانے کتنی دیر
دل کے دروازے پر اس کی یاد نے کل شب دستک دی
میں دیوار سے لگ کر رویا اور نجانے کتنی دیر
اک مدت کے بعد مرا احساس ہوا ہرجائی کو
یعنی مجھ کو دیر سے سمجھا اور نجانے کتنی دیر
اس لہجے کی برف نجانے کب پگھلے معلوم نہیں
میری آنکھ سے بہتا دریا اور نجانے کتنی دیر
کوئی تیز ہوا کا جھونکا کوئے یار سے جب آیا
میں اس کی خوشبو سے لپٹا اور نجانے کتنی دیر
اتنا یاد ہے نین ملے تھے آگے پھر کچھ یاد نہیں
میں نشّے میں کتنا بہکا اور نجانے کتنی دیر
شکر خدا کا اسٹیشن پر نام لکھا تھا گاؤں کا
ورنہ میں بھٹکا ہی رہتا اور نجانے کتنی دیر
شام آئی تو چاند کو تکنے مل بیٹھے تھے پھر اس نے
سر میرے شانے پر رکھا اور نجانے کتنی دیر
سید جواد حاشر
No comments:
Post a Comment