Thursday 18 April 2024

کبھی بہار بنے اور سنور گئے ہم لوگ

 کبھی بہار بنے اور سنور گئے ہم لوگ

کبھی غبار کی صورت بکھر گئے ہم لوگ

کبھی حیات کے خورشید ماہتاب ہوئے

کبھی حیات کو تاریک کر گئے ہم لوگ

کبھی ہجوم حوادث سے بے خطر گزرے

کبھی ہواؤں کے جھونکوں سے ڈر گئے ہم لوگ

کبھی چراغ جلائے،۔ چمک اٹھیں راہیں

کبھی اندھیروں ہی میں اپنے گھر گئے ہم لوگ

کبھی مذاق گلابوں کی مانند کھل اٹھے کیا کیا

اسی جگہ با چشم تر گئے ہم لوگ

وہ اڑ رہی ہے نئے قافلوں کی گرد رباب

وہ آ گئے نئے اہلِ سفر، گئے ہم لوگ


رباب رشیدی

No comments:

Post a Comment