کبھی بہار بنے اور سنور گئے ہم لوگ
کبھی غبار کی صورت بکھر گئے ہم لوگ
کبھی حیات کے خورشید ماہتاب ہوئے
کبھی حیات کو تاریک کر گئے ہم لوگ
کبھی ہجوم حوادث سے بے خطر گزرے
کبھی ہواؤں کے جھونکوں سے ڈر گئے ہم لوگ
کبھی چراغ جلائے،۔ چمک اٹھیں راہیں
کبھی اندھیروں ہی میں اپنے گھر گئے ہم لوگ
کبھی مذاق گلابوں کی مانند کھل اٹھے کیا کیا
اسی جگہ با چشم تر گئے ہم لوگ
وہ اڑ رہی ہے نئے قافلوں کی گرد رباب
وہ آ گئے نئے اہلِ سفر، گئے ہم لوگ
رباب رشیدی
No comments:
Post a Comment