کیوں لاؤں ترے شہر کے آثار اٹھا کر
دیوار اُٹھاتے نہیں دیوار اٹھا کر
تنکوں کی با نسبت تھے ضروری تو پرندے
کاندھوں پہ لیے پِھرتے ہیں اشجار اٹھا کر
اب بول، بنانی ہے کہاں پر نئی دنیا؟
میں گھر سے نکل آیا ہوں پرکار اٹھا کر
جو قبر سے ہو پُھول اُٹھاتے ہوئے خائف
کیا کرنا ہے اُس شخص پہ تلوار اٹھا کر
جس دشت بھی جاتا ہوں میں بن باس کی خاطر
رکھ دیتا ہے اُس میں کوئی بازار اٹھا کر
یہ نیند میں کیا ٹھوکریں کھاتے ہوئے چلنا
بستر سے جو اُٹھتا ہے تو بیدار اٹھا کر
شاید کوئی دُنیا کو کبھی ٹھیک کرائے
بیٹھا ہوں سرِ راہ میں اوزار اٹھا کر
رباب حیدری
No comments:
Post a Comment