Sunday, 28 April 2024

نگاہ و دل میں کوئی راہ و در نہیں رہتا

 نگاہ و دل میں کوئی راہ و در نہیں رہتا 

جو معتبر تھا اگر معتبر نہیں رہتا

یہ کون سارے جہاں میں بھٹکتا پھرتا ہے

کہیں رہے تو رہے، اپنے گھر نہیں رہتا

جو دل سے دیرپا ہوتا نہ درد کا رشتہ

تو میرے حرفِ دُعا میں اثر نہیں رہتا 

جو پتھروں سے رفاقت نہ اس قدر رکھتے 

تو آئینوں سے سدا ایک  ڈر نہیں رہتا

یہ اعتدال کے رستے ہیں دین و دنیا سب

کہ انتہاؤں پہ کوئی امَر نہیں رہتا

یقیں کی سیج پہ اقدار معتبر رہتے  

خیال و خواب میں مدّ و جزر نہیں رہتا

نہ آہینوں سے شناسائی  کر سکا  لازم 

کہ سنگ تراش کبھی  شیشہ گر نہیں رہتا

تمہارے ساتھ حوالوں کی داستاں کامِل

بجز یقین کوئی ہم سفر نہیں رہتا 

اماوسوں کے پُجاری ذرا یقیں رکھتے

کہ شب سَحار، کنارِ سحر نہیں رہتا

شعور ذات کی تکمیل کے صحیفے تھے  

کوئی بھی حرف ادھورا اگر نہیں رہتا

بتا وہ کون سی صف میں شمار ہو گا اب 

جو آدمی نہیں رہتا،۔ بشر نہیں رہتا 

اُسے ہجوم کی یہ سرگزشت کیا دی گی 

کہ جس کی ذات سے باہر، سفر نہیں رہتا

رُکے نہ وقت، نہ راہی کوئی نیامِ سفر

بجُز شجر کہ رہِ منتظر نہیں رہتا

حرم کے بعد مدینے کی وہ فضیلت ہے

نبیؐ کے در کا رہا، در بہ در نہیں رہتا 

دیارِ عشق حرم ہے، سو کارواں راجی 

گیا وہاں تو، جہانِ دگر نہیں رہتا 


زاہدہ رئیس راجی

No comments:

Post a Comment