Friday, 19 April 2024

میری خاطر ہیر کے چاچے سے ٹکراویں گے کیا

 زعفرانی غزل


"دوست غم خواری میں میری سعی فرماویں گے کیا"

میری خاطر، ہیر کے چاچے سے ٹکراویں گے کیا

گنج زخمی ہے مگر ناخن بھی چھوٹے ہیں ابھی

"زخم کے بھرتے تلک ناخن نہ بڑھ جاویں گے کیا"

صاف کیوں آتی نہیں آواز موبی لنک پر

"ہم کہیں گے حال دل اور آپ فرماویں گے، کیا؟"

چوہدری صاحب، اپوزیشن کو سمجھانے گئے

"کوئی مجھ کو یہ تو سمجھا دو کہ سمجھاویں گے کیا"

زُلف سے گرتی ہوئی جُوں، اُن کو للکارے ہے یُوں

"عذر میرے قتل کرنے میں وہ اب لاویں گے کیا"

جیب خالی ہو گئی گر تین ہفتوں میں مِری

"یہ جنونِ عشق کے انداز چُھٹ جاویں گے کیا؟"

لیڈروں نے کی کرپشن سے وفا، ہر دور میں

"ہیں گرفتارِ وفا زنداں سے گھبراویں گے کیا"

کھُل گیا ہے کوئی میکڈونلڈ تو بتلائیے

"ہم نے یہ مانا کہ دلی میں رہیں کھاویں گے کیا؟"


عرفان قادر

No comments:

Post a Comment