زعفرانی غزل
جوتے نامہ
ہائے یہ کس گمان میں لکھا
وہ بھی اردو زبان میں لکھا
ہم کو کیا ہو گیا زمانے دیکھ
ہم نے جوتوں کی شان میں لکھا
جوتے پیروں کے بھی محافظ ہیں
جوتے چہروں کے بھی محافظ ہیں
جوتے جب تک نہ آئیں ہاتھوں میں
جوتے بچوں کے بھی محافظ ہیں
کتنے ذی احتشام کھاتے ہیں
صدر عالی مقام کھاتے ہیں
کچھ تو کھاتے کبھی کبھی ہیں انہیں
اور کچھ صبح و شام کھاتے ہیں
کتنے ارماں کچلتے ہیں جوتے
پاوں سے بھی پھسلتے ہیں جوتے
بند کمروں میں پہلے چلتے تھے
اب تک میداں میں چلتے ہیں جوتے
جب بھی جوتوں میں دال بٹتی ہے
غیرت آدمی پھڑکتی ہے
دل میں اک آگ سی سلگتی ہے
اور مخالف پہ جا برستی ہے
پھر تو چلتے ہیں ہر طرف جوتے
کتنے ہوتے ہیں برطرف جوتے
جمع ہوتے ہیں روڈ پر اکثر
کرنے ہڑتال صف بہ صف جوتے
جوتے کانٹوں سے بھی حفاظت ہیں
جوتے غصے کی بھی علامت ہیں
جوتے پیروں میں ہوں تو رحمت ہیں
ورنہ جوتے بھی یہ قیامت ہیں
جوتے اظہار غیرت اقوام
جوتے عزت کو کرتے ہیں نیلام
جوتے عظمت کی کھا گئے تاریخ
جوتے اپنی بنا گئے تاریخ
الاماں! الحفیظ! جوتوں سے
تو بچانا پلیز جوتوں سے
مہتاب قدر
No comments:
Post a Comment