دیوانے ذرا رقص جنوں تیز کیے جا
منطق سے خرد کی ابھی پرہیز کیے جا
میں تیرے معائب کو محاسن ہی کہوں گا
تو ظرف انا کو میرے لبریز کیے جا
خاموش نہ رہ غنچۂ سربستہ کی صورت
لب کھول تو ماحول کو گلریز کیے جا
سیراب تو کر لوح و قلم خون جگر سے
تو کشت سخن زار کو زرخیز کیے جا
خود کھنچ کے چلی آئے گی وہ لیلائے منزل
بس ذوق طلب کو یوں ہی مہمیز کیے جا
سجاد سید
No comments:
Post a Comment