Monday 29 April 2024

دیوانے ذرا رقص جنوں تیز کیے جا

 دیوانے ذرا رقص جنوں تیز کیے جا

منطق سے خرد کی ابھی پرہیز کیے جا

میں تیرے معائب کو محاسن ہی کہوں گا

تو ظرف انا کو میرے لبریز کیے جا

خاموش نہ رہ غنچۂ سربستہ کی صورت

لب کھول تو ماحول کو گلریز کیے جا

سیراب تو کر لوح و قلم خون جگر سے

تو کشت سخن زار کو زرخیز کیے جا

خود کھنچ کے چلی آئے گی وہ لیلائے منزل

بس ذوق طلب کو یوں ہی مہمیز کیے جا


سجاد سید

No comments:

Post a Comment