Saturday 20 April 2024

اگر خود اپنے مراتب سے آشنا ہو جائے

 اگر خود اپنے مراتب سے آشنا ہو جائے

ذرا سی دیر میں انسان کیا سے کیا ہو جائے

نہ جانے کتنے دلوں سے امنڈ پڑے آنسو

خدا کرے یہ مرا ساز بے صدا ہو جائے

کسی کتاب کسی رہنما کی حاجت کیا

ہر ایک نقص اگر شعر میں روا ہو جائے

عجیب رسم زمانہ ہے اس کو کیا کہئے

جو دوسروں کو ملائے وہی برا ہو جائے

دل و نگاہ مکدر ہوں جن کے چہرے سے

ہمارا ان کا کہیں پھر نہ سامنا ہو جائے

ہمارے گھر کی جو دشمن بنی ہوئی ہے ابھی

چلے ہوا تو پریشاں یہی گھٹا ہو جائے

یقین لطف و کرم آپ اگر دلائیں اسے

نصیر حلقۂ‌‌ اوہام سے رہا ہو جائے


نصیر کوٹی

No comments:

Post a Comment