اگر خود اپنے مراتب سے آشنا ہو جائے
ذرا سی دیر میں انسان کیا سے کیا ہو جائے
نہ جانے کتنے دلوں سے امنڈ پڑے آنسو
خدا کرے یہ مرا ساز بے صدا ہو جائے
کسی کتاب کسی رہنما کی حاجت کیا
ہر ایک نقص اگر شعر میں روا ہو جائے
عجیب رسم زمانہ ہے اس کو کیا کہئے
جو دوسروں کو ملائے وہی برا ہو جائے
دل و نگاہ مکدر ہوں جن کے چہرے سے
ہمارا ان کا کہیں پھر نہ سامنا ہو جائے
ہمارے گھر کی جو دشمن بنی ہوئی ہے ابھی
چلے ہوا تو پریشاں یہی گھٹا ہو جائے
یقین لطف و کرم آپ اگر دلائیں اسے
نصیر حلقۂ اوہام سے رہا ہو جائے
نصیر کوٹی
No comments:
Post a Comment