Sunday 21 April 2024

زندگی تیرے لیے خواب سہی گیت

 زندگی تیرے لیے خواب سہی، گیت

نقرئی گیتوں کی زرکار سجیلی کرنیں

نور برساتی رہیں تیرے شبستانوں میں

زندگی ٹھوکریں کھاتی رہی طوفانوں میں

تو کہاں سوچتی خوابوں کی سجل بانہوں میں

کیوں ڈھلکنے سے بھی معذور رہا کرتے ہیں

وہی آنسو جنہیں مبہم سا سہارا نہ ملا

کسی دامن، کسی آنچل کا کنارا نہ ملا

کیسے محبوب تمناؤں کی کومل کلیاں

آگ اور خون کے عفریت نکل جاتے ہیں

کیسے تہذیب کے معیار بدل جاتے ہیں

تو کہاں سنتی وہ بے باک نوائی جس کو

لوریاں دے کے سلایا ہے نہاں خانوں میں

انہیں روندی ہوئی ٹھکرائی ہوئی راہوں میں

کتنی نوخیز امیدوں کے سجیلے سپنے

کتنی معصوم امیدوں کے لجیلے سپنے

چند دانوں کے عوض، بکتے رہے بکتے رہے

بربریت کے ستم سہتے رہے سہتے رہے

زندگی میرے لیے خواب نہ تھی، گیت نہ تھی


ادا جعفری

No comments:

Post a Comment