فلسفے کو عشق کی دھیمی سلگتی آگ پر
شعر ہونے کے لیے کتنے زمن کَڑھنا پڑا
احسن تقویم کی فطرت سمجھنے کے لیے
لومڑی کے بعد سانپوں کا چلن پڑھنا پڑا
دخترِ انگور کی دوشیزگی کو الوداع
ہاں وہ مِینا بن گئی پر چار دن سڑنا پڑا
کچھ نیا کرنے کی خاطر لازمی تھا انہدام
بدھ بنانے کے لیے سدھارتھ کو گڑھنا پڑا
کن کی لاشوں پر بسایا جا رہا ہے شہرِ نو
کرگسوں کا غول آیا ہنس کو اڑنا پڑا
قافیہ اوزان فعلن فاعلن اپنی جگہ
شعر سچا تھا، قلم کو بارہا گَھڑنا پڑا
کس طرح ثقفی نکل پاتا نصابِ عصر سے
مسئلہ تھا شاعری ہمزاد سے لڑنا پڑا
اقتدار اعوان
No comments:
Post a Comment