Sunday 28 April 2024

کوئی وقت تھا یہاں شہر اک تھا بسا ہوا وہ کہاں گیا

 کوئی وقت تھا یہاں شہر اِک تھا بسا ہُوا وہ کہاں گیا

یہیں اک محل لبِ آب جُو تھا بنا ہوا وہ کہاں گیا

وہ جو چاند میرے اُفق پہ تھا مجھے کیا خبر کہاں چھُپ گیا

وہ جو پھُول اک میرے صحن میں تھا کھلا ہوا وہ کہاں گیا

کوئی کامگار تھا بیچ کے کوئی ہوشیار خرید کے

پہ زرِ قلیل میں مال کو تھا بکا ہوا وہ کہاں گیا

مِرے ہم نفس! مِرے ہم نوا! تجھے یاد شاید نہیں رہا

تِرا عہد وہ کبھی تُو نے جو تھا کیا ہوا وہ کہاں گیا

کبھی میرے سینے میں میٹھی میٹھی سی اک کسک تھی وہ کیا ہوئی

کبھی میرے پہلو میں اِک دل تھا دُکھا ہوا وہ کہاں گیا

میری ڈائری میں کسی جگہ تیرے دستخط تھے میں ڈھونڈ لوں

کہیں ایک خط تِرے ہاتھ کا تھا لکھا ہوا وہ کہاں گیا

وہ مِرے سرہانے فریم تھی کوئی سجی ہوئی کہاں کھو گئی

مِری قبر پر جو چراغ اک تھا جگا ہوا وہ کہاں گیا

مِرا ہم صدا، مِرا ہم ادا، وہی میرا عابدِ خوش نواز

وہ مِری غزل میں جو نام اک تھا سجا ہوا وہ کہاں گیا


عابد جعفری

No comments:

Post a Comment