Friday 26 April 2024

اس لیے بھی وه مجھے دل سے نہیں ملتی ہے

 اس لیے بھی وه مجھے دل سے نہیں ملتی ہے

اس کی مشکل مِری مشکل سے نہیں ملتی ہے

وقت تسلیم بھی کرتا ہے نہیں بھی ہم کو

داد ملتی ہے مگر دل سے نہیں ملتی ہے

تُو ابھی ہجر کی بھٹی میں نہیں ٹھیک پکا

تیری تصویر ابھی سِل سے نہیں ملتی ہے

کیسے قزاق کے قبضے میں سمندر آیا

اب کوئی سیپی بھی ساحل سے نہیں ملتی ہے

کسی منظر میں مِری آنکھ لگے بھی کیسے

کوئی بھی چیز تِرے تل سے نہیں ملتی ہے

جتنی محنت میں محبت میں کیا کرتا ہوں

اتنی اجرت مجھے اس مل سے نہیں ملتی ہے


مہر فام

No comments:

Post a Comment