Sunday, 14 April 2024

میں نے اس سے یہ کہا آزادی کا مطلب کیا

 برنگِ حبیب جالب

میں نے اُس سے یہ کہا


آزادی کا مطلب کیا

میں نے اُس سے یہ کہا

سب کو روٹی اور گھر دِلا

مفت تعلیم، سستا علاج

اور حق روزگار دلا

میں نے اُس سے یہ کہا


سن لے سچ کی صدا

کیوں مزدور رہیں رسوا

دہقانوں کی فریاد سے کُجا

یہ تیرا محل ہے یا خونی بلا

میں نے اس سے یہ کہا


محکوموں کا حق آزادی

تُو نہ اُس کو لہو سے نہلا

تیرے شب و روز وارے نیارے

مُفلسوں کا حق تُو نہ کھا

میں نے اُس سے یہ کہا


چھوڑ دے سوچوں پہ پہرے

سُن بھی لے مظلوں کے نالے

ہو گا اک دن تُو بھی رُسوا

میں نے اُس سے یہ کہا


یہ جشن آزادی جھوٹا ہے تمہارا

دونوں اور جہاں ہے تیروں کا پہرا

خلقت ساری زباں دوختہ و لب بستہ

میں نے اُس سے یہ کہا


امتیاز فہیم

No comments:

Post a Comment