یہ لوگ جبر پہ کرتے جو احتجاج نہیں
سو ان سے اس لیے ملتا مرا مزاج نہیں
جو سچ بتائے وہ پاگل بتایا جاتا ہے
یہاں پہ حق کو سمجھنے کا اب رواج نہیں
غنیم شہر کو معلوم ہی نہیں کہ مجھے
بجز خدا کے کسی کا بھی احتیاج نہیں
سماج کیا ہے مرے آپ کے رویے ہیں
برے تو لوگ ہیں بھائی برا سماج نہیں
ہمیں تو مسند عشق و وفا عطا ہوئی ہے
ہمارے ذہن پہ چھائے یہ تخت و تاج نہیں
سبھی کو ذہنی غلامی کا ایک ٹیومر ہے
مرض تو کافی پرانا ہے لا علاج نہیں
یہ سادہ بات بتانے میں کیا تامل ہے
وہ میرے کل میں نہیں ہے میں جس کا آج نہیں
کبھی کبھار میں سوچوں تو کانپ اٹھتا ہوں
زمیں خدا کی ہے لیکن خدا کا راج نہیں
اسلم رضا خواجہ
No comments:
Post a Comment