Saturday 13 April 2024

منافقت نہ دکھائے خوشی خوشی نکلے

 مُنافقت نہ دِکھائے، خُوشی خُوشی نِکلے

جِسے نِکلنا ہے دل سے مِرے، ابھی نکلے

تُو جس کو چاہے اُسے اور سے محبت ہو

اور اُس کی پہلی محبت ہی آخری نکلے

تُو میرے شعر پہ ہنستا ہے، یہ دُعا ہے مِری

کہ تیرے بچوں کی نس نس سے شاعری نکلے

خُدا سمجھ کے پکارے تُو صبح و شام جسے

تِری مدد کو نہ پہنچے، وہ آدمی نکلے

تمہںں پتا تو چلے زعم ٹُوٹنا کیا ہے

تمہارا پہلا سپاہی ہی آخری نکلے

تمہارا بچہ کہے؛ یہ کھلونا چاہیے، اور

تمہاری جیب سے بس دس کا نوٹ ہی نکلے

وہ مائیں اپنا بدن بیچ دیں کماتے ہوئے

وہ بیٹے کہتے رہیں؛ کاش لاٹری نکلے

میں روز مِلتا ہوں اتنے فضول لوگوں سے

مِرا دماغ جو کھولو تو بس دہی نکلے

کبھی منایا بُرا، اور کبھی توجہ نہ دی

یونہی پڑے رہے در پر کبھی، کبھی نکلے


نعمان شفیق

No comments:

Post a Comment