زعفرانی غزل
دستور بن رہا ہے
کھوڑو اکڑ رہا ہے اور نون رہا ہے
روٹھا ہے سہروردی ممدوٹ تن رہا ہے
اور فضل الحق کہ اپنی دُھن میں مگن رہا ہے
دستور بن رہا ہے، دستور بن رہا ہے
سردار امیر اعظم گیسُو سنوارتا ہے
بڑھ بڑھ کے فضل رحمٰن جب ڈینگ مارتا ہے
ممتاز دولتانہ نالج بکھارتا ہے
دستور بن رہا ہے، دستور بن رہا ہے
ہارون کے گلے میں تقریر اٹک رہی ہے
اور اپنے راشدی کی ٹوپی چمک رہی ہے
ہے افتخار دین یا چڑیا پُھدک رہی ہے
دستور بن رہا ہے، دستور بن رہا ہے
عبدالرشید اپنا دکھڑا سنا رہا ہے
جوش غضب میں جعفر طوفاں اٹھا رہا ہے
عبدالوہاب خاں بھی گھنٹی بجا رہا ہے
دستور بن رہا ہے، دستور بن رہا ہے
منصور لیگیوں کی ہر راہ گھیرتا ہے
باری میاں بھی اٹھ کے شعلے بکھیرتا ہے
صوفی حمید، داڑھی پر ہاتھ پھیرتا ہے
دستو ر بن رہا ہے، دستور بن رہا ہے
خاموش تالپور ہے، سوہن میاں بھی چپ ہے
ہے نور حق بھی خاموش، بسواس خاں بھی چپ ہے
عابد حسین چپ ہے، زیب جہاں بھی چپ ہے
دستو ر بن رہا ہے، دستور بن رہا ہے
کرتا ہے بات گر کی نواب گُرمانی
بابا جلال کا ہے لہجہ جلال خانی
جنرل مجیب میں ہے کیا زور نوجوانی
دستو ر بن رہا ہے، دستور بن رہا ہے
مجید لاہوری
No comments:
Post a Comment