جو عقدہ مشکل ہے وہ آسان سا کیوں ہے
پھر بھی میرا دل اتنا پریشان سا کیوں ہے
گلیوں کا یہ انبوہ، یہ بازار کی رونق
یہ شہر مگر پھر بھی بیابان سا کیوں ہے
کیوں بدلا ہُوا طرزِ تکلم ہے کسی کا
دیرینہ رفاقت پہ بھی انجان کیوں ہے
طفلانِ سرِ راہ کا سا انداز ہے اُس کا
وہ عقل میں پُختہ ہے تو نادان کیوں ہے
دُنیا سے بھی ہیں اُس کے مراسم بہت اچھے
اُس نے مِرا رہنا ہے، مجھے مان کیوں ہے
دُکھ درد کے اشعار سے لبریز ہے گویا
ہر شخص یہاں صاحبِ دیوان کیوں ہے
صدف غوری
No comments:
Post a Comment