Monday 15 April 2024

جو عقدہ مشکل ہے وہ آسان سا کیوں ہے

 جو عقدہ مشکل ہے وہ آسان سا کیوں ہے

پھر بھی میرا دل اتنا پریشان سا کیوں ہے

گلیوں کا یہ انبوہ، یہ بازار کی رونق

یہ شہر مگر پھر بھی بیابان سا کیوں ہے

کیوں بدلا ہُوا طرزِ تکلم ہے کسی کا

دیرینہ رفاقت پہ بھی انجان کیوں ہے

طفلانِ سرِ راہ کا سا انداز ہے اُس کا

وہ عقل میں پُختہ ہے تو نادان کیوں ہے

دُنیا سے بھی ہیں اُس کے مراسم بہت اچھے

اُس نے مِرا رہنا ہے، مجھے مان کیوں ہے

دُکھ درد کے اشعار سے لبریز ہے گویا

ہر شخص یہاں صاحبِ دیوان کیوں ہے


صدف غوری

No comments:

Post a Comment