Saturday 13 April 2024

جاتے ہیں وہاں سے گر کہیں ہم

 جاتے ہیں وہاں سے گر کہیں ہم

ہر پھر کے پھر آتے ہیں وہیں ہم

صد حیف کہ کُنجِ بے کسی میں

کوئی نہیں اور ہیں ہمیں ہم

خاموشی کی مہر ہے دہن پر

ہیں حلقۂ غم میں جوں نگیں ہم

آیا نہ وو شوخ اور گئے آہ

حسرت ہی بھرے تہ زمیں ہم

تکتے رہے جانب در اے وائے

مر مر کے بہ وقتِ واپسیں ہم

کیا کیا کھینچے ہیں آپ کو دور

ٹک بیٹھے جو یار کے قریں ہم

دیکھ آئینہ ہم سے پوچھے تھے یوں

سچ کہیو کہ کیسے ہیں حسیں ہم

قسمت میں تو ہجر ہے غضنفر

اب وہ ہے تو آپ میں نہیں ہم


غضنفر علی

No comments:

Post a Comment