جو مٹی کے کھلونے بیچتا تھا
خُدائی کے وہ نقشے بیچتا تھا
جو اک آواز دھیمی آ رہی تھی
کوئی مجبور، فاقے بیچتا تھا
کسی کی جان کی قیمت تھی کوڑی
کوئی لاکھوں کے لمحے بیچتا تھا
مِرا ہمزاد تاروں سے پرے تھا
میں خود دنیا میں دُکھڑے بیچتا تھا
مِری فریاد سن کر اک مسیحا
مجھے سُکھ کے طریقے بیچتا تھا
کسی کے ہاتھ وہ اپنی وراثت
نشے کی بھینٹ چڑھ کے بیچتا تھا
خریدے جس نے اس کو کیا خبر تھی
کوئی خوابوں کے پرزے بیچتا تھا
اسے لوگوں کو دھوکے بیچنے تھے
جِسے جتنے کے بِکتے، بیچتا تھا
راشد ڈوگر
No comments:
Post a Comment