میں ایسا تھا کہ ایسا ہو گیا ہوں
مجھے ہونا تھا کیا، کیا ہو گیا ہوں
تِری دنیا میں جینے کی تمنا
تِری چاہت میں اندھا ہو گیا ہوں
ہے کوئی اور بھی دنیا میں تنہا
کہ میں تنہا اکیلا ہو گیا ہوں
کسی کا دھیان تو میری طرف ہو
در و دیوار جیسا ہو گیا ہوں
اب اکثر تم بھی مجھ کو ٹوکتے ہو
میں اب میں کب ہوں دنیا ہو گیا ہوں
مِرا احوال غربت، بھوک، افلاس
کروں کیا نذر فردا ہو گیا ہوں
نمائندہ ہوں کس طبقے کا شاداب
جو ہر منہ منہ کا نوالہ ہو گیا ہوں
شاداب احسانی
No comments:
Post a Comment