واپسی کا سفر
میں کہ ابہام کے راستے سے پرے
ڈھونڈتی تھی جسے
وہ یقیں، بے یقینی کے مسند پہ بیٹھا ہوا
کوئی ابہام تھا
گریہ سچ ہے تو کیوں
تیرگی میں مجھے روشنی کا گماں ہی پلٹنے نہ دے
ہم نے مانا کہ ہر لوٹنے کا سفر
اپنے اندر تھکی یاد کی گھٹریاں
باندھ کر جب پلٹنے کی رہ پر چلیں
کرب لمحوں میں بے ضبط موتی بھی پلکوں پہ آ کے تھمیں
ہم نہ چاہیں گے لیکن تعاقب میں ہوں گی وہ پرچھائیاں
خواب زاروں پہ پھیلی وہ تنہائیاں
شب کے گہرے پڑاؤ پِہ روشن چراغوں کی اُمید بھی
ڈگمگانے سے پہلے، پریشاں تھی، پل کو حیراں تھی
وہ جو موجود ہے کیسے کردوں نفی
بے دھیانی میں مڑ کر جو دیکھا تمہیں
ضبط کی ساری کڑیاں سمیٹے ہوئے
گہری آنکھوں کے سیلاب میں بہہ گئے
تم سے میرا یا مجھ سے تمہارا سفر
زاہدہ رئیس راجی
No comments:
Post a Comment