Thursday 4 April 2024

عین ممکن ہے کوئی آنکھ بھی بیدار نہ ہو

 عین ممکن ہے کوئی آنکھ بھی بیدار نہ ہو

صبح پیڑوں پہ اگر چڑیوں کی چہکار نہ ہو

تیری آمد پہ ہر اک شخص کی خواہش ہو گی

مجھ سوا کوئی گلابوں کا خریدار نہ ہو

گردش وقت سے آ دونوں ہی مل کر ڈھونڈیں

ایسا پل جس میں بچھڑنا ہمیں دشوار نہ ہو

آگہی مرگِ مسلسل کے سوا کچھ بھی نہیں

جیسا ہے ویسا ہی رہ اتنا سمجھدار نہ ہو

کتنی حسرت سے مکانوں کی طرف دیکھتا ہے

احنبی شخص کا جیسے کہیں گھر بار نہ ہو

اپنی اولاد کو مرتے ہوئے کنگال نہ کر

تیری غربت کا تقاضا ہے کہ بیمار نہ ہو

میں نے یہ سوچ کے زخموں کی نمائش کی ہے

تا کہ دشمن مرے اشعار سے بیزار نہ ہو


راکب مختار

No comments:

Post a Comment