عین ممکن ہے کوئی آنکھ بھی بیدار نہ ہو
صبح پیڑوں پہ اگر چڑیوں کی چہکار نہ ہو
تیری آمد پہ ہر اک شخص کی خواہش ہو گی
مجھ سوا کوئی گلابوں کا خریدار نہ ہو
گردش وقت سے آ دونوں ہی مل کر ڈھونڈیں
ایسا پل جس میں بچھڑنا ہمیں دشوار نہ ہو
آگہی مرگِ مسلسل کے سوا کچھ بھی نہیں
جیسا ہے ویسا ہی رہ اتنا سمجھدار نہ ہو
کتنی حسرت سے مکانوں کی طرف دیکھتا ہے
احنبی شخص کا جیسے کہیں گھر بار نہ ہو
اپنی اولاد کو مرتے ہوئے کنگال نہ کر
تیری غربت کا تقاضا ہے کہ بیمار نہ ہو
میں نے یہ سوچ کے زخموں کی نمائش کی ہے
تا کہ دشمن مرے اشعار سے بیزار نہ ہو
راکب مختار
No comments:
Post a Comment