میں نے جب قطرہ لکھا اُس نے سمندر پڑھ لیا
میرے باہر ہی سے اُس نے میرا اندر پڑھ لیا
میں چھپاتا رہ گیا دنیا سے اپنے آپ کو
میری آنکھوں میں مجھے دنیا نے اکثر پڑھ لیا
میں نے اس کو مہرباں لکھا، کرم فرما لکھا
لیکن اُس ظالم ستمگر نے ستمگر پڑھ لیا
دونوں ہی اک دوسرے کے سامنے سے ہٹ گئے
دونوں نے اک دوسرے کی آنکھ میں ڈر پڑھ لیا
مضطرب ہوں جانے کیا آئے گااب خط کا جواب
میں نے جو لکھا نہیں اس نے وہی گر پڑھ لیا
آج بھی دن بھر رہے ہم ڈاکیے کے منتظر
آج بھی خط ہم نے اپنے نام لکھ کر پڑھ لیا
اس پہ بھی ویرانیوں کے ٹوٹتے ہوں گے پہاڑ
میرے لکھے دشت کو جس شخص نے گھر پڑھ لیا
پاس آتی ہی نہیں کو ئی کنارے والی موج
جیسے سب نے میری کشتی کا مقدر پڑھ لیا
راجیش ریڈی
No comments:
Post a Comment