یہ نہ پوچھو کہ جدا ہو کے کدھر جائیں گے
اب کے بچھڑیں گے مِری جان تو مر جائیں گے
ہم نے یہ سوچ کے منزل کا تعیّن نہ کِیا
آپ جائیں گے جِدھر ہم بھی اُدھر جائیں گے
آپ کے پیار پہ نازاں ہوں، بھرم رکھیے گا
ورنہ پھر آپ مِرے دل سے اُتر جائیں گے
پُوچھتے کیا ہو؟ شبِ غم کی طوالت کیا ہے
آپ اک شب کے گُزرنے سے گُزر جائیں گے
اب کے آئے ہیں تِرے در پہ تہیّہ کر کے
یاں سے اوپر کو ہی جائیں گے اگر جائیں گے
پُوچھ ان جھونپڑی والوں سے ہوا کی تیزی
تیرے تو بال ہی بِکھرے ہیں سنور جائیں گے
ہاں مِری قوم کو بس جُھوٹی تسلی دے دو
ان کو سچائی بتا دو گے تو ڈر جائیں گے
شان وہ ہم تھے کی سب ناز اُٹھائے ان کے
اب وہ دُنیا سے ملیں گے تو سُدھر جائیں گے
ذیشان لاشاری
No comments:
Post a Comment