جنبش جو ہو تو جام چھلکتا دِکھائی دے
دریا میں یوں تو ہوتے ہیں قطرے ہی قطرے سب
قطرہ وہی ہے جس میں کہ دریا دِکھائی دے
کیوں آئینہ کہیں اسے پتھر نہ کیوں کہیں
جس آئینے میں عکس نہ اس کا دِکھائی دے
دُکاندار
یہ تاجرانِ دِین ہیں
خُدا کے گھر مکِین ہیں
ہر اِک خُدا کے گھر پہ ان کو اپنا نام چاہیے
خدا کے نام کے عِوض کُل انتظام چاہیے
ہر ایک چاہتا ہے یہ
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہی وعدہ، یعنی نباہ کا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ جو لُطف مجھ پہ تھے پیشتر، وہ کرم کہ تھا مرے حال پر
مجھے سب ہے یاد ذرا ذرا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ نئے گِلے، وہ شکایتیں، وہ مزے مزے کی حکایتیں
وہ ہر ایک بات پہ رُوٹھنا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
میں نعرۂ مستانہ، میں شوخئ رِندانہ
میں تشنہ کہاں جاؤں، پی کر بھی کہاں جانا
میں طائرِ لاہُوتی، میں جوہرِ ملکُوتی
ناسُوتی نے کب مُجھ کو، اس حال میں پہچانا
میں سوزِ محبت ہوں، میں ایک قیامت ہوں
میں اشکِ ندامت ہوں، میں گوہرِ یکدانہ
کس یاد کا صحرا ہوں، کس چشم کا دریا ہوں
خُود طُور کا جلوہ ہوں، ہے شکل کلیمانہ
میں شمعِ فروزاں ہوں، میں آتشِ لرزاں ہوں
میں سوزشِ ہجراں ہوں، میں منزلِ پروانہ
میں حُسنِ مجسّم ہوں، میں گیسوئے برہم ہوں
میں پُھول ہوں شبنم ہوں، میں جلوۂ جانانہ
میں واصفِ بسمل ہوں، میں رونقِ محفل ہوں
اِک ٹُوٹا ہوا دل ہوں، میں شہر میں ویرانہ
واصف علی واصف
تشنہ رکھا ہے، نہ سرشار کیا ہے اس نے
میں نے پوچھا ہے تو اِقرار کیا ہے اس نے
گِر گئی قیمتِ شمشاد قداں آنکھوں میں
شہر کو مصر کا بازار کیا ہے اس نے
وہ یہاں ایک نئے گھر کی بِنا ڈالے گا
خانۂ درد کو مسمار کیا ہے اس نے
وہ گُلاب، وہ غُنچے، وہ سمن نہیں مِلتے
جِنکے پُھول خُوشبو دیں، وہ چمن نہیں مِلتے
اجنبی دیاروں میں، ہموطن نہیں مِلتے
ہموطن مِلیں بھی تو ہم سخن نہیں مِلتے
مطلبی فضاؤں کا طور ہی نرالا ہے
تن سے تن تو مِلتے ہیں، من سے من نہیں مِلتے
گھر عطا کر، مکاں سے کیا حاصل
صرف وہم و گماں سے کیا حاصل
بے یقینی ہی بے یقینی ہے
ایسے ارض و سماں سے کیا حاصل
آفتِ ناگہاں کو روکے کون؟
دولتِ بیکراں سے کیا حاصل
نیند تو آئی، مگر خواب کے تحفے نہ ملے
کُھل گئی آنکھ تو پھر نیند کے لمحے نہ ملے
آج تک جوڑ کے رکھا ہمیں جن جذبوں نے
اِن دنوں خیر سگالی کے وہ جذبے نہ ملے
کیونکہ غمخواری میں شامل تھی اداکاری بھی
اِس لیے مجھ کو تسلّی کے دو جملے نہ ملے