Saturday, 17 October 2020

نارسائی درختوں کی شاخوں کو اتنی خبر ہے

 نارسائی


درختوں کی شاخوں کو اتنی خبر ہے

کہ ان کی جڑیں کھوکھلی ہو چلی ہیں

مگر ان میں ہر شاخ بزدل ہے

یا مبتلا خود فریبی میں شاید

کہ اِن کِرم خوردہ جڑوں سے

وہ اپنے لیے تازہ نم ڈھونڈتی ہے

میں مہمان خانے کے سالون میں

ایک صوفے میں چپ چاپ دبکا ہوا تھا

گرانی کے باعث وہاں دخترانِ عجم تو نہ تھیں

ہاں کوئی بیس گز پر

فقط ایک چہرہ تھا جس کے

خد و خال کی چاشنی ارمنی تھی

زمستاں کے دن تھے

لگاتار ہوتی رہی تھی سرِ شام سے برفباری

دریچے کے باہر سفیدے کے انبار سے لگ گئے تھے

مگر برف کا رقصِ سیمیں تھا جاری

وہ اپنے لباسِ حریری میں

پاؤں میں گل ہائے نسریں کے زنگولے باندھے

بدستور اک بے صدا، سہل انگار سی تال پر ناچتی جا رہی تھی

مگر رات ہوتے ہی چاروں طرف بے کراں خامشی چھا گئی تھی

خیاباں کے دو رویہ سرو و صنوبر کی شاخوں پہ

یخ کے گلولے، پرندے سے بن کر لٹکنے لگے تھے

زمیں ان کے بکھرے ہوئے بال و پر سے

کف آلود ساحل سا بنتی چلی جا رہی تھی

میں اک گرم خانے کے پہلو میں صوفے پہ تنہا پڑا سوچتا تھا

بخاری میں افسردہ ہوتے ہوئے رقص کو گھورتا تھا

اجازت ہے میں بھی

ذرا سینک لوں ہاتھ اپنے

(زبان فارسی تھی تکلم کی شیرینیاں اصفہانی)

تمہیں شوق شطرنج سے ہے

(اٹھا لایا میں اپنے کمرے سے شطرنج جا کر)

بچو فِیل

اسپِ سیہ کا تو خانہ نہیں یہ

بچاؤ وزیر

اور لو یہ پیادے کی شہ لو

اور اِک اور شہ

اور یہ آخری مات

بس ناز تھا کیا اسی شاطری پر

میں اچھا کھلاڑی نہیں ہوں

مگر آن بھر کی خجالت سے میں ہنس دیا تھا

ابھی اور کھیلو گے

لو اور بازی

یہ اک اور بازی

یونہی کھیلتے کھیلتے صبح ہونے لگی تھی

مؤذن کی آواز اس شہر میں زیرِ لب ہو چکی ہے

سحر پھر بھی ہونے لگی تھی

وہ دروازے جو سال ہا سال سے بند تھے

آج وا ہو گئے تھے

میں کرتا رہا ہند و ایراں کی باتیں

اور اب عہدِ حاضر کے ضحاک سے

رستگاری کا رستہ یہی ہے

کہ ہم ایک ہو جائیں، ہم ایشیائی

وہ زنجیر، جس کے سرے سے بندھے تھے کبھی ہم

وہ اب سست پڑنے لگی ہے

تو آؤ کہ ہے وقت کا یہ تقاضا

کہ ہم ایک ہو جائیں ہم ایشیائی

میں روسی حکایات کے ہرزہ گو نوجوانوں کے مانند یہ بے محل وعظ کرتا رہا تھا

اسے صبحدم اس کی منزل پہ جب چھوڑ کر آ رہا تھا

وہ کہنے لگی

اب سفینے پہ کوئی بھروسہ کرے کیا

سفینہ ہی جب ہو پر و بالِ طوفاں

یہاں بھی وہاں بھی وہی آسماں ہے

مگر اس زمیں سے خدایا رہائی

خدایا دہائی

ٹھکانہ ہے لوطی گری، رہزنی کا

یہاں زندگی کی جڑیں کھوکھلی ہو چکی ہیں

فقط شاخساریں

ابھی اپنی افتاد کے حشر سے ہیں گریزاں

یہ بچپن میں، میں نے پڑھی تھی کہانی

کہا ساحرہ نے

کہ اے شاہزادے

رہِ جستجو میں

اگر اس لق و دق بیاباں میں

دیکھا پلٹ کر

تو پتھر کا بت بن کے رہ جائے گا تو

جہاں سب نگاہیں ہوں ماضی کی جانب

وہاں راہرو ہیں فقط عازمِ نارسائی

تو دن بھر یہی سوچ تھی

کیا ہمارے نصیبے میں افتاد ہے

کوئی رفعت نہیں

کوئی منزل نہیں ہے


ن م راشد

No comments:

Post a Comment