سانپ
یہ سانپ آج جو پھن اٹھائے
مِرے راستے میں کھڑا ہے
پڑا تھا قدم چاند پر میرا جس دن
اسی دن اسے مار ڈالا تھا میں نے
اکھاڑے تھے سب دانت کچلا تھا سر بھی
مروڑی تھی دم توڑ دی تھی کمر بھی
مگر چاند سے جھک کے دیکھا جو میں نے
تو دم اس کی ہلنے لگی تھی
یہ کچھ رینگنے بھی لگا تھا
یہ کچھ رینگتا کچھ گھسٹتا ہوا
پرانے شوالے کی جانب چلا
جہاں دودھ اس کو پلایا گیا
پڑھے پنڈتوں نے کئی منتر ایسے
یہ کم بخت پھر سے جلایا گیا
شوالے سے نکلا وہ پھنکارتا
رگ ارض پر ڈنک سا مارتا
بڑھا میں کہ اک بار پھر سر کچل دوں
اسے بھاری قدموں سے اپنے مسل دوں
قریب ایک ویران مسجد تھی، مسجد میں
یہ جا چھپا
جہاں اس کو پٹرول سے غسل دے کر
حسین ایک تعویذ گردن میں ڈالا گیا
ہوا جتنا صدیوں میں انساں بلند
یہ کچھ اس سے اونچا اچھالا گیا
اچھل کے یہ گرجا کی دہلیز پر جا گرا
جہاں اس کو سونے کی کیچل پہنائی گئی
صلیب ایک چاندی کی سینے پہ اس کے سجائی گئی
دیا جس نے دنیا کو پیغام امن
اسی کے حیات آفریں نام پر
اسے جنگ بازی سکھائی گئی
بموں کا گلوبند گردن میں ڈالا
اور اس دھج سے میداں میں اس کو نکالا
پڑا اس کا دھرتی پہ سایہ
تو دھرتی کی رفتار رکنے لگی
اندھیرا اندھیرا زمیں سے
فلک تک اندھیرا
جبیں چاند تاروں کی جھکنے لگی
ہوئی جب سے سائنس زر کی مطیع
جو تھا علم کا اعتبار اٹھ گیا
اور اس سانپ کو زندگی مل گئی
اسے ہم نے ضحاک کے بھاری کاندھے پہ دیکھا تھا اک دن
یہ ہندو نہیں ہے مسلماں نہیں
یہ دونوں کا مغز اور خوں چاٹتا ہے
بنے جب یہ ہندو مسلمان انساں
اسی دن یہ کم بخت مر جائے گا
کیفی اعظمی
No comments:
Post a Comment