Saturday 17 October 2020

یہ نہ کہنا کبھی ہر درد سے آزاد ہیں ہم

 یہ نا کہنا کبھی ہر درد سے آزاد ہیں ہم

عشق ہم نے بھی کیا عشق کے فرہاد ہیں ہم

اپنی خواہش کا ہمیں قتل کیا کرتے ہیں

آدمی کہنے کو ہیں اصل میں جلاد ہیں ہم

ہم نے وہ لکھی ہے تحریرِ اماں کاغذ پر 

منہ زبانی کئی آنکھوں کو ابھی یاد ہیں ہم

بانٹتے پھرتے ہیں ہم امن و اماں کے دانے 

دیکھنے والے سمجھتے ہیں کی صیاد ہیں ہم

جس کو تاریخ فراموش نہیں کر سکتی

وہ تیرے شہر کی ٹوٹی ہوئی بنیاد ہیں ہم

روتے روتے ہوئے ہنسنے کی ہمیں عادت ہے

مکتبِ عشق کے پہنچے ہوئے استاد ہیں ہم

ہم کو پڑھ کر کے بہت روئیں گے پڑھنے والے 

نسلِ آدم کے لیے وہ نئی روداد ہیں ہم

زندگی چاک پہ رکھ رکھ کے نچاتی ہے ہمیں 

ایسی مٹی کی بنائی ہوئی ایجاد ہیں ہم

جل گئے تپتی زمینوں پہ ہمارے خیمے

ہائے افسوس ابھی جانبِ بیداد ہیں ہم

ہم نے چھوڑا ہے ترقی کے لیے گھر اپنا 

اپنے ماں باپ کی بگڑی ہوئی اولاد ہیں ہم

کون روکے گا خلاؤں کے سفر سے ہم کو

اب تو صیاد تیری قید سے آزاد ہیں ہم

شہر میں اس لیے ہے امن و اماں کا موسم

ایک مدت سے اسی شہر میں آباد ہیں ہم

کب تیرے غم سے پریشان ہوئے ہم دنیا 

صرف دل ہی نہیں تو دیکھ کی دلشاد ہیں ہم


دل سکندر پوری

No comments:

Post a Comment