Saturday 17 October 2020

پھر اس کے بعد تو تنہائیوں کے بیچ میں ہیں

 پھر اس کے بعد تو تنہائیوں کے بیچ میں ہیں

کہ غم کی ٹوٹتی انگڑائیوں کے بیچ میں ہیں

یہ شادیانے فقط سرخوشی کا نام نہیں

کسی کی چیخیں بھی شہنائیوں کے بیچ میں ہیں

ہمیں تو خوف سا لاحق ہے ٹوٹ جانے کا

تعلقات جو گہرائیوں کے بیچ میں ہیں

یہ جائیداد یہ مال و متاع و میراثیں

فساد انہی پہ مِرے بھائیوں کے بِیچ میں ہیں

ہمارا درد بھی اِک، سوچنے کا زاویہ ایک

عجیب ناتے یہ صحرائیوں کے بیچ میں ہیں

کسی کو اوجِ ثریا پہ لے چلے تھے، مگر

صلہ ملا ہے یہی، کھائیوں کے بیچ میں ہیں

یہ دل کا شیشہ تو ٹکڑوں میں بٹ چکا کب کا

ابھی تلک تیری رعنائِیوں کے بیچ میں ہیں

وفا ہے کیا یہاں مفہوم کس کو سمجھائیں

یہی تو دکھ ہے کہ ہرجائیوں کے بیچ میں ہیں 

بجا یہ بات کہ لازم ہے ضبط حسرت جی

مگر یہ آنکھیں کہ پُروائیوں کے بیچ میں ہیں


رشید حسرت

No comments:

Post a Comment